حوزہ نیوز ایجنسی کی رپورٹ کے مطابق،لاہور/ وفاق المدارس الشیعہ پاکستان کے صدر آیت اللہ حافظ سید ریاض حسین نجفی نے جامع علی مسجد جامعتہ المنتظر میں خطبہ جمعہ دیتے ہوئے کہا ہے کہ انسان نیکی کی کوشش اور برائیوں سے کنارہ کشی کرے تو اللہ کی طرف سے تحسین اور قدردانی کی جاتی ہے۔ خطا، غلطی ہو تو توبہ کر لی جائے۔ہر گناہ توبہ اور پشیمانی سے معاف ہوسکتا ہے لیکن اللہ کے ساتھ کسی اور کوشریک ٹھہرانے کا گناہ ناقابلِ معافی ہے۔اس کی ذات و صفات میں کسی کو شریک کرنا معاف کئے جانے کے قابل نہیں۔حضرت فاطمہ ؑ،والدِ بزرگوار کی رحلت کے بعد فقط تین ماہ اور چند دن زندہ رہیں۔آپ کی عظمت کا یہ عالَم کہ شکمِ مادر میں والدہ سے باتیں کیا کرتی تھیں۔ مکتب اہل بیت کے نزدیک فقط حضرت فاطمہ ہی حضورکی اکلوتی بیٹی ہیں،دیگرآپ کی بیٹیاں نہ تھیں۔ خاتم الانبیاءکی اولاد فاطمہ ؑ سے چلی ابتر کا طعنہ دینے والے بنو اُمیہ کا آج نام و نشان تک نہیں۔ حضور کی رحلت کے دس دن بعد فدک پر قبضہ کیا گیا جو آپ نے سورہ الحشر کی آیت کی روشنی میں اپنی اس دختر کو باقاعدہ سند لکھ کرعطا فرما یا تھا۔
انہوں نے کہا کہ الٰہی تعلیمات کا ایک اہم مقصد انسان دوستی اور ہمدردی ہے،دوسروں کے دکھ کا احساس کرنا ہے۔سُنّتِ الہٰی ہے کہ جب لوگ گناہ شروع کر دیتے ہیں تو عذاب یقینی ہو جاتا ہے۔قومیں ملیا میت ہو جاتی ہیں۔ کاش ان سے عبرت لی جاتی اوررب کی اطاعت کی جاتی توسب اللہ کی رحمت میں ہوتے۔گناہ کرتے وقت سوچنا چاہئے کہ اگر سب سے چُھپ کر بھی غلط کام کیا جائے تب بھی اللہ تو دیکھ رہا ہے۔وہ تو دل کی باتوں اور خیالات سے بھی آگاہ ہے۔حضرت نوحؑ کے زمانے جتنی عمر ہو یا مختصر،سب کا انجام موت ہے۔کفن، دفن نصیب ہونے کا بھی یقین نہیں۔
حافظ ریاض نجفی نے دختر رسول حضرت فاطمة الزہرا سلام اللہ علیہا کے یوم شہادت کے حوالے سے کہا کہ 1432سال قبل سیدة نساءالعالمین حضرت فاطمة الزہراء کی شہادت ہوئی۔آپ ؑ،والدِ بزرگوار کی رحلت کے بعد فقط تین ماہ اور چند دن زندہ رہیں۔آپ کی عظمت کا یہ عالَم کہ شکمِ مادر میں والدہ سے باتیں کیا کرتی تھیں۔
انہوں نے واضح کیا کہ مکتب اہل بیت کے نزدیک فقط حضرت فاطمہ ہی حضورکی اکلوتی بیٹی ہیں،دیگرآپ کی بیٹیاں نہ تھیں۔جب مروان نے حضور کو ” ابتر“ کا طعنہ دیا توسورہ مبارکہ کوثر نازل ہوئی جس کا مصداق جناب فاطمة الزہراء ہیں جن سے آپ کی نسل چلی۔جبکہ ابتر کا طعنہ دینے والے بنو اُمیہ کا آج نام و نشان تک نہیں۔
انہوں نے کہا کہ حضور نے مروان کو مدینہ بدر کر دیا جسے بعد کے دو خلفاءنے بھی برقرار رکھا۔اہل سنت کے معروف مفسر جناب فخر الدین رازی لکھتے ہیں کہ پیغمبر اکرم جناب فاطمہ ؑکا کھڑے ہو کر استقبال کرتے،انہیں اپنی نشست پر بٹھاتے۔ان کے ہاتھ چومتے۔یہ اس بی بی کی عظمت ہے کہ حضور کی روح قبض کرنے کے لئے عزرائیل بھی ان کی اجازت کے بغیر گھر میں داخل نہ ہوا ، حضور بھی اجازت لے کر اس گھر میں تشریف لاتے لیکن آپ کی رحلت کے بعد اسی گھر کے دروازے پر لوگ آگ اور لکڑیاں لے کر آئے۔بی بی نے احتجاج کیا کہ” میں فاطمہ ہوں“مگر کسی نے لحاظ نہ کیا۔18سال کی عمر میں عصا کا سہارا لینے پر مجبور ہو گئیں۔حضرت علی ؑ انہیں حسنین ؑ کے ہمراہ کوہِ احد کے قریب ایک درخت کے پاس چھوڑ آتے جہاں آپ گریہ فرماتیں لیکن وہ درخت بھی کاٹ دیا گیا۔حضور کی رحلت کے دس دن بعد فدک پر قبضہ کیا گیا جو آپ نے سورہ الحشر کی آیت کی روشنی میں اپنی اس دختر کو باقاعدہ سند لکھ کرعطا فرما یا تھا۔فدک کی آمدنی ذاتی ضروریات کے علاوہ غرباء و مساکین پر خرچ کی جاتی تھی۔بی بیؑ نے پہلے دربار میں پیغام بھیج کر فدک کے بارے احتجاج کیا، پھر خود تشریف لے گئیں، حضور کی سند پیش کی۔خطبہ میں اللہ کی حمد و ثناء کے بعد اپنے حق کے ثبوت میں قرآنی آیات اور احادیث پیش کیں۔آں حضور نے رحلت سے قبل اپنی بیٹی فاطمہؑ اوراُن کے لختِ جگر حسینؑ کے حق میں خصوصی وصیت فرمائی تھی لیکن دونوںکی مظلومیت اظہر من الشمس ہے۔